اردو شاعری -

اب تو یوں ہم کو لگتے ہیں گلاب تلخیاں
جیسے کہ ساحلوں پہ ہوں گرداب تلخیاں 


ہر چاہنے والے نے دئیے ہیں مجھے ستم
محببتیں تو بہت عام ہیں نایاب تلخیاں 


عنوان محبّت پہ جو بھی پڑھی کتاب
صفحات رو رہے تھے اور تھے باب تلخیاں


مجھ کو نہیں ہے لوٹا کسی بے نقاب نے
مجھ کو تو اب یہ لگتے ہیں حجاب تلخیاں


بے خواب آنکھیں اچّھی ہیں جھوٹے خواب سے
رونے سے کہیں بہتر ہے بے 
آب تلخیاں

پوچھا جو اس نے مجھہ سے تجھے کیا چاہیے
ہنس کر کہا تھا میں نے بس جناب تلخیاں

No comments:

Post a Comment